سوال :
ٍٍٍٍ کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنے موٹر سائیکل کو دو مہینے کے اُدھار پر بیالیس ہزار روپے(۴۲۰۰۰) میں فروخت کردیااوردس ہزارروپے (۱۰۰۰۰) نقد وصول کرلئے۔ پھر جب دو مہینے مکمل ہوئے توبائع نے مشتری سے کہا کہ اب مجھے باقی ماندہ روپے واپس کردے،تومشتری نے کہاکہ یہ موٹرسائیکل اب میں بیچوں گااوراس کی قیمت آپ کے حوالہ کروں گا،تواس وقت بائع نے کہاکہ بس آپ یہ موٹرسائیکل مجھ پرپینتیس ہزارروپے(۳۵۰۰۰) میں فروخت کرلو،بتّیس ہزارروپے(۳۲۰۰۰) آپ کے ذمہ باقی ہیں اورمزیدتین ہزارروپے (۳۰۰۰)میں آپ کے حوالہ کروں گااور دوسرے نے اس کو قبول کر لیا۔ تواب پوچھنا یہ ہے کہ۷۰۰۰ہزارروپے جونفع اس کوحاصل ہورہاہے وہ اس کے لیے جائز ہے یانہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
شریعت مطہرہ کی رو سے مالی معاملات میں وہ زیادتی جو بلاعوض کے ہو،سودہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔ اور جوزیادتی کسی عوض کے مقابلہ میں حاصل ہو،وہ جائزاورحلال ہوتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں بائع کا اپنے موٹر سائیکل کو بیالیس ہزارروپے(۴۲۰۰۰)میں فروخت کر دینااورپوری رقم وصول کرنے سے پہلے پہلے دو مہینے بعد اس کو دوبارہ پینتیس ہزارروپے(۳۵۰۰۰)میں خریدلیناناجائزاورحرام ہے۔ایسا معاملہ کرناسود کے لیے حیلہ، بہانہ تراشنامتصورہوگا۔تاہم اگر مذکورہ موٹرسائیکل کی مکمل قیمتِ فروخت ادا کرنے کے بعداب مشتری اس کو دوبارہ بائعِ اول کو فروخت کرنا چاہے تووہ پہلی قیمت سے کم، زیادہ یابرابر کسی بھی صورت میں اس کو فروخت کر سکتا ہے۔ پہلے والے معاملے کی مکمل ادائیگی سے پہلے پہلے اس کو بائعِ اول کے ہاتھوں کم قیمت میں فروخت کرنا جائز نہیں۔
والدلیل علی ذالک:
’’(وشراء ماباع بالاقل بالنقد)أيلم یجز شراء البائع ماباع بأقل مماباع قبل نقدالثمن، ……ولا بدمن نقد جمیع الثمن،(وقال الشامي: فی منحۃ الخالق علی ھامش البحرالرائق’’ سواء کان الثمن حالاً أو مؤجلاً)‘‘(۱)
ترجمہ: (اور بیچی ہوئی چیزکو نقداً کم قیمت پر لینا) یعنی بائع کے لیے بیچی ہوئی چیز کواس کی قیمتِ فروخت سے کم پر ثمن کی ادائیگی سے پہلے لیناجائز نہیں۔۔۔۔اورتمام قیمت کی ادائیگی ضروری ہے۔(اور منحۃ الخالق میں کہا ہے، ثمن چاہے نقد ہو یا اُدھار)۔
(۱)البحرالرائق،کتاب البیع، باب البیع الفاسد:۶/۱۳۴،۱۳۵،مکتبہ رشیدیہ