سوال :
کیا فرما تے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ، کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو مار رہا تھا ،شوہر کے والد نے آکراپنے بیٹے کو دوسرے کمرے میں لے گیا،اور وہاں اس کی خوب پٹھائی کی،جب والد صاحب اپنے بیٹے کو مار رہا تھا ،تو بیٹے نے کہا(کہ تہ ما وخے نو دا خزہ پہ ما طلاقہ وے؟)اب اس کی بیوی کہتی ہے،کہ پٹھائی کے دوران میں نے شوہر کے منہ سے چار دفعہ یہ الفاظ سنے(کہ میں نے اپنے بیوی طلاق دی ہے)،لیکن شوہر اوراس کے والد دونوں اس کا انکا ر کررہے ہیں ،کہ اس نے اس طرح کے الفاظ نہیں کہے،جب بیوی سے بیان لی گئی تو وہ یہ بات بھی کرتی ہے ،کہ اگر میں جھوٹ بولتی ہوں تومیرا سسر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیں۔ واضح رہے کہ اس معاملہ کے بعد عورت تین مہینے تک شوہر کے گھر میں رہی تھی ،پوچھنے پر جواب میں کہتی رہی کہ میرے سسر نے مجھے منع کیا تھا ،کہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بیان کریں۔
الجواب حامداًومصلیاً
شریعت مطہرہ کی رو سے عورت جب طلاق کا اقرار کر رہی ہو او رشوہر طلاق کا انکار کررہا ہوتو یہ عورت کی طرف سے طلاق کا دعوی ہے ،اور دعوی کو ثابت کرنے کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہاں پیش کرنا لازمی ہے ۔البتہ گواہی کی عدم موجودگی میں شوہر سے قسم لی جائے گی ۔
صورت مسئولہ میں اگر واقعی عورت کے ساتھ گواہان موجود نہ ہوںتو محض اس کی اقرارسے طلاق واقع نہ ہوگی اورعورت کا یہ کہنا کہ(اگر میں جھوٹ بولتی ہوں تو میرا سسراپنی بیوی کوتین طلاقیں دے ڈالیں )،مذکورہ طلاق میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے ،کیونکہ طلاق کا معاملہ میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اورسسر کے ساتھ اس کاکوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہاں اگر بیوی اپنی دعوی میں سچی ہو،اور اس کو یقینی طور معلوم ہو کہ شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ،تو پھر عورت کو چاہئے کہ حتی الامکان شوہر کو اپنی اوپر قدرت نہ دے۔ اور جہاں شوہر کے ان الفاظ کا تعلق ہے (کہ تہ ما وخے نودا سہ کوے دا خزہ پہ ما طلاقہ وے؟)اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،ہاں اگر واقعی شوہرنے طلاق دی ہو،اور کے باوجود انکار کر رہا ہو ،تو دائمی اور سخت گنہ گا ر ہوگا۔
والدلیل علی ذلک:
’’وقال:وما سوی ذلک من الحقوق یقبل فیھا شھادۃ الرجلین أو رجل وإمرأتین،سوائً کان الحق مالاً أو غیر مال مثل النکا ح و الطلاق‘‘(۱)
ترجمہ:حدود و قصاص کے علاوہ حقوق میں دو آمیوں کی یا ایک آدمی اور دو عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی،چاہے وہ حق ما ل ہو ،یاکوئی اور چیز ہو، جیسے نکاح اور طلاق۔
(۱)الھدایۃ للإمام برھان الدین المرغیناني،کتاب الشھادۃ ،۳/۱۶۱ مکتبہ رحمانیہ لاھور ۔
’’سمعت من زوجھا أنہ طلقھا ولا تقدر علی منعہ من نفسھاإلا بقتلہ ،لھا قتلہ بدواء خوف القصاص ولا تقتل نفسھا…… ترفع الأمر للقاضی فإن حلف ولا بینۃ فالإثم علیہ وإن قتلتہ فلا شیء علیھا‘‘(۲)
ترجمہ: اگر عورت اپنے شوہر سے یہ سنے،کہ اس نے اس کو طلاق دی ہے،اور وہ عورت اس بات پر قادر نہ ہو،کہ اس کو اپنے آ پ سے منع کرے مگر یہ کہ اس کو قتل کردے،تو اس عورت کے لئے یہ جائز ہے کہ اپنی شوہر کو زہر پلا کر اس کا معاملہ ختم کردے۔اور اس عورت کے لئے اپنے آپ کو قتل کر نا جائز نہیں ہے۔۔۔اگر معاملہ عدالت میں پہنچا اور شوہر نے حلف اٹھائی،اور عورت کے پاس کوئی گواہ نہ ہو،تو شوہر گنہ گار ہو گی،اگر بیوی شوہر کو قتل کردے ،تو عورت گنہ گار نہ ہو گی۔
(۲) الحصکفي، علاؤالدین، الدر المختار علیٰ صدر ردالمحتار،کتاب الطلاق،باب الرجعۃ، مطلب الإقدام علی النکاح إقرار بمضي المدۃ:۵/۵۵،۵۶