سوال :
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیامیڈیکل کالج یاطبی کالج وغیرہ کے مستحق طلبہ پرزکوٰۃ کی مد سے وظائف خرچ کیے جاسکتے ہیں ؟جب کہ عموماًیہ وظائف ایسے ہی طلبہ کودیے جاتے ہیں جوپڑھنے میں ذہین ہوتے ہیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
زکوٰۃ اور صدقات ِواجبہ کی رقم کسی ایسے فقیر شخص کوتملیکاً دیناضروری ہے جو صاحبِ نصاب نہ ہو،یعنی اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یااس کی قیمت ،زیوریاگھرکاضرورت سے زائد سامان نہ ہو۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں جوطلبہ ان شرائط پر پورااترتے ہوں ،تو ان کوزکوٰۃ کی مد سے وظائف جاری کردیناجائز ہے ،چاہے وہ طلبہ علمی استعداد کے لحاظ سے کمزور ہوں یاقوی ہوں۔صرف محنتی اور ذہین طلبہ کے ساتھ ان وظائف کو خاص کردینالازم اور ضروری نہیں ،اس لیے کہ اگر وہ ذہین طلبہ غیرمستحق ہوں توپھر ان کوزکوٰۃ کی مد سے وظائف جاری کردینے سے زکوٰۃ ادانہ ہوگی۔
والدلیل علی ذلک:
’’ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً کما مر،ولایصرف إلی بناء نحومسجد۔‘‘وقال ابن عابدین:’’(قولہ تملیکاً)فلایکفي فیہ الإطعام إلا بطریق التملیک۔و(قولہ نحو مسجد)کبناء القناطر……وکل مالاتملیک ‘‘(۱)
ترجمہ: اور زکوٰۃ کوتملیک کے طورپرخرچ کرناشرط ہے نہ کہ اباحت کے طورپر،جیساکہ گذر گیا۔اور زکوٰۃ مسجد جیسی چیزوں کی تعمیر پر خرچ نہیں کی جائے گی۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ مصنف کایہ قول (تملیکاً): اس میں کھلاناکافی نہیں ،البتہ تملیک کے طور پرکھلاناصحیح ہے۔اور مصنف کایہ قول (نحو مسجد): جیسے پل کی تعمیر ……اور ہروہ چیز جس میں مالک بننے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔
(۱)الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب الزکوٰۃ ،باب المصارف:۲/۳۴۴مکتبہ ایچ ایم سعید
’’باب المصرف،أيمصرف الزکوٰۃ والعشر……ھو فقیر ،وھو من لہ أدنیٰ شئی أي دون نصاب أوقدرنصاب غیرنام مستغرق فيالحاجۃ،ومسکین من لاشیئی لہ علی المذھب۔‘‘(۲)
ترجمہ: باب المصرف یعنی زکوٰۃ اور عشر کامصرف……وہ فقیرہے ۔اور فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس معمولی چیز ہو،یعنی نصاب سے کم یابقدرِنصاب غیر نامی مال،جوضرورت میں لگاہواہو۔اور مسکین وہ ہے جس کے پاس صحیح مذہب کے مطابق کچھ بھی نہ ہو۔
(۲)الدرالمختارعلی صدرردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،:۲/۳۳۹،مکتبہ ایچ ایم سعید