سوال :
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ متولی زکوٰ ۃ کی رقم میں تصرف کرسکتا ہے یانہیں؟یعنی ا س کو مضاربت ، شرکت یا قرض وغیرہ پر دے سکتا ہے یا نہیں ؟
الجواب وباللّہ التو فیق:
زکوٰۃ کی ادا ہونے کے لئے شرط یہ ہے ،کہ زکوٰۃ کی رقم مستحقین کو بغیر کسی عوض کے تملیکاًدی جائے،پس جہاں تملیک کی شرط نہ پائی جائے ،تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی ۔
صورت مسئولہ میں متولی کے لئے زکوۃ کی رقم میں کسی قسم کی تصرف جائز نہیں ،لہذا متولی زکوۃ کی رقم شرکت و مضاربت وغیرہ کے طور پر کسی اور کو نہیں دے سکتا،ورنہ مالک کی طرف سے زکوۃ ادا نہ ہوگی،اور تصرف کرنے والاضامن ہوگا۔
والدلیل علی ذلک:
’’ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا اباحۃً‘‘۔(۱)
ترجمہ: زکوۃ ادا کرنے میں تملیک شرط ہے نہ کہ اباحت۔
(۱)الدر المختار علی صدر رد المحتار للعلامۃ الحصکفیؒ ،کتاب الزکوۃ،باب المصرف، ۳/۲۹۱
’’إن کان صرف المال الذی دفعہ الآمر فيحاجتہ ثم دفعھا من مال نفسہ ،فھذا لا یجوز ،لأ نہ لما أنفقہ صار مضمونا علیہ فلایبرأ إلا بالأداء إلی المالک۔(۲)
ترجمہ:ایک شخص (۲)نے دوسرے کو زکوۃ کا مال دے کر کہا ،کہ یہ کسی فقیر کے حوالے کردو،اس دوسرے شخص نے زکوۃ کی پوری رقم اپنی ذاتی اغراض میں خرچ کردی،اور پھر اپنے مال سے آمر کی طرف سے زکوۃ ادا کردی، تو یہ جائز نہیں ،کیونکہ آمرکی مال کو خرچ کردینے دے وہ ضامن بن گیا ،تو اس کا ذمہ تب بری ہوگا جب یہ اس کی عوض مالک کے حوالہ کردے ۔
(۲) العلامۃ عالم بن العلاء الأنصاري ،التاترخانیۃ ،کتاب الزکاۃ ،الفصل التاسع في المسائل المتعلقۃ بمعطي الزکاۃ:۲/۲۱۴ ،