دارالافتاء

سنت ِمؤکدہ کو شروع کرنے کے بعد توڑدینا

سوال :

         کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ،کہ کنزالدقائق کی عبارت ہے ’’لزم النفل بالشروع‘‘’’نفل شروع کرکے توڑ دے تو اس کی قضالازم ہے‘‘۔پوچھنایہ ہے کہ سنت مؤکدہ شروع کرکے توڑدے تو کیا اس کی بھی قضا لازم ہوگی؟      

الجواب وباللہ التوفیق:

         فرائض اور واجبات کے علاوہ تمام نمازوں پر نفل کااطلاق ہوتاہے ،پس جس طرح نفل شروع کرنے کی وجہ سے اس کا پورا کر نا واجب ہوتاہے،اسی طرح سنن ِمؤکدہ کابھی یہی حکم ہے ،یعنی ان نمازوں کو شروع کرنے کے بعد کسی بھی وجہ سے توڑدیا گیا تو ان کی قضا واجب ہوگی۔

والدلیل علی ذلک:

’’وإذاشرع في التطوع یلزمہ المضي فیہ وإذا أفسدہ یلزمہ القضاء‘‘(۱)

ترجمہ:نفل نماز شروع کرنے کے بعداس کا پورا کردینا لازم ہوجاتاہے،اور اگر درمیان میں نماز کو توڑدے تواس کی قضا لازم ہوجاتی ہے۔

(۱)بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ،فصل في صلوٰۃ التطوع ھل یلزم بالشروع:۲/۵،مکتبہ رشیدیۃ کوئٹہ

’’وکذا الجواب في السنن الراتبۃ ،أنہ لایجب بالشروع فیھا إلا الرکعتین حتیٰ لو قطعھا قضیٰ رکعتین في ظاھر الروایۃ عن أصحابنا،لأنہ نفل وعلی روایۃ أبيیوسف قضیٰ أربعاًفيکل موضع یقضي في الطوع أربعاً،ومن المتأخرین من مشائخنااختار قول أبي یو سف فیما یؤديمن الأربع بتسلیمۃ واحدۃ وھو الأربع قبل الظھر ،وقال:لوقطعھایقضي أربعاً‘‘(۲)

         ترجمہ:اوریہی حکم سنن مؤکدہ کابھی ہے اس لیے کہ سنن مؤکدہ شروع کرنے سے صرف دو رکعات واجب ہوجاتی ہے،یہاں تک کہ اگر نماز کو درمیان میں توڑ دیا تو جمہور کے قول کے مطابق دو رکعات کی قضاکرے گا،اس لیے کہ یہ نفل ہے۔لیکن امام ابویوسف ؒ کے قول کے مطابق سنن مؤکدہ میں ہر ایسے موقع پر چار رکعات کی قضاکرے گاجہاں پر نفلوں میں چاررکعات کی قضاکرناپڑتاہے۔اور متأخرین مشائخ نے امام ابویوسف ؒ کے قول کو ایسے چاررکعات والی سنن مؤکدہ میں اختیار کیاہے جو ایک سلام کے ساتھ اداکی جاتی ہے اور وہ ظہر سے پہلے کی چاررکعات والی نمازہے۔ اگر اس کو توڑدیا تو چار رکعات کی قضاکرے گا۔

(۲)بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ،،بیان مقدار مایلزم منہ بالشروع:۲/۸،مکتبہ رشیدیۃ کوئٹہ