سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں،کہ ایک شخص۴جریب زمین کا مالک ہے، اس نے اپنی زمین۶۰ ہزار روپے کی عوض دوسرے شخص کو۳سال کیلئے اجارہ پر دیدی ، لیکن مالک زمین نزمیندار سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے وصول کر لی،اور کہا کہ ۳سال کے بعد جب آپ مجھے زمین واپس کروگے، تو اس وقت میں تجھ کوایک لاکھ روپے واپس کردوںگا۔شریعت میں اس طرح کا اجارہ جائز ہے یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
فقہی اصول کے مطابق عقد اجارہ میں ایسی شرط لگانا جو عقد کے مناسب نہ ہو، اس سے عقداجارہ فاسدہوجاتی ہے،صورت مسئولہ میں چونکہ ایسی زائد منافع کو مشروط قرار دی گئی ہے،کہ جس کے مقابلے میںکوئی عوض نہیں ،اورمعاوضات مالیہ میں ایسی زیادتی جس کے مقا بلے میں کوئی عوض نہ ہو،سود کہلاتی ہے۔اسی وجہ سے مذکورہ صورت بھی یہی سود کی وجہ سے فاسد اور ناجائزہے۔
والدلیل علی ذلک:
وأمّا الذي یرجع إلی رکن العقد ،فخلوّہ عن شرط لا یقتضیہ العقد ولا یلائمہ ،حتی لو آجرہ داراًعلی أن یسکنھاشھراًثمّ یسلّمھاإلی المستاجر،أو أرضاًعلی أن یزرعھا ثمّ یسلّمھا إلی المستاجر……فالإجارۃفاسدۃ،لأنّ ھذا شرط لا یقتضیہ العقد ،وأنہ شرط لایلائم العقد،وزیادۃ منفعۃ مشروطۃ في العقد لایقابلھاعوض فيمعاوضۃ المال بالمال یکون رباً،أفیھاشبھۃ الربوا وکل ذلک مفسد للعقد۔(۱)
ترجمہ: اور وہ امور جوعقد کے رکن سے تعلق رکھتے ہیں،تو ان میں سے بعض یہ ہیں ،کہ عقد ایسے شروط سے خا لی ہو،جو نہ عقد اس کا تقاضہ کررہا ہو ،اور نہ عقد کے مناسب ہو۔یہاںتک کہ اگر کسی نے اپناگھر دوسرے کو اس شرط پر کریہ پر دیدیا،کہ وہ خود اس میں ایک ماہ تک سکونت اختیار کروںگا،پھر اس کے بعد کرایہ دار کے حوالے کرے گا،یا زمین اس شرط کے ساتھ اجارہ دی ،کہ پہلے(کچھ مدت تک)وہ خود کاشت کرے گا،اور بعد میںمستاجر کے حوالہ کرے گا،یا جانورکو اس شرط پرکرایہ پر دی ،کہ وہ خود ایک ماہ تک اس پرسواری کرے گا،وغیرہ وغیرہ،تو ان (تمام) صورتوںمیںاجارہ فاسد ہوگی۔اس لئے کہ یہ ایک ایسا شرط ہے،جو عقد کے مناسب بھی نہیں،اورنہ عقد اس کا تقاضہ کررہا ہے،اور عقد کے اندر ایسی زیادتی کو مشروط کرنا جس کے مقابلے میں کوئی مالی عوض نہ ہو ،ربا،یاشبہ ربا کہلاتی ہے،اوران میں سے ہر ایک عقد کو فاسد کرنے والی ہے۔(۱)بدائع الصنائع،للإمام علاء الدین الکاسانیؒ ،کتاب الإجارۃ، فصلّ فيشروط الإجارۃ، ۴/۵۰ ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ