سوال :
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حجاج کرام کے عید کے دن ہمارے لیے روزہ رکھناکیساہے ؟ہمارے علاقہ کے بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ اسی دن روزہ رکھناصحیح نہیں ہے ،کیونکہ یہ عرفہ کاروزہ ہے اور عرفہ ایک ہی ہے جس دن وقوفِ عرفات ہوتاہے وہی یومِ عرفہ ہے ۔جب کہ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ حاجیوں کے عید کے دن روزہ رکھنا صحیح ہے ۔اور یوم عرفہ نو(۹) ذی الحجہ ہی کانام ہے اور ہمارانو(۹) ذی الحجہ حجاج کرام کے عید کے دن ہوتاہے لہذا اس دن روزہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔اب دریافت طلب امریہ ہے کہ کس کاقول صحیح ہے ؟اور یہ فرمائیں کہ یوم عرفہ ایک ہی ہے یانہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
فقہاء کرام کے ہاں ہلال ِرمضان کے مسئلہ میں اختلاف ِ مطالع معتبر نہیں کیونکہ اس کاتعلق مطلقِ رؤیت یعنی چاند دیکھنے سے ہے ۔اس کے علاوہ جوباقی احکامات ہیں ،مثلاً:حج،عرفہ ،اُضحیہ وغیرہ تو اس میں اختلاف ِمطالع معتبر ہے ،اسی اصول کو مدّنظر رکھ کر یوم عرفہ ،وقوفِ عرفات کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ نو(۹)ذی الحجہ کانام یومِ عرفہ ہے ۔اور یومِ عرفہ میں اختلاف مطالع کی وجہ سے اس میں تقدیم وتأخیر آسکتی ہے ۔لہذا اگرحجاج کرام کے عید کے دن ہی کسی اور علاقے میں نو(۹) ذی الحجہ ہو تو اس علاقے والوں کے لیے نو(۹) ذی الحجہ کوروزہ رکھناجائز اور درست ہے۔اور اسی دن روزہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔
والدلیل علی ذلک:
’’تنبیہ :في الفیض وغیرہ،لووقع الشک في أن الیوم یوم عرفۃ أو یوم النحر فالأفضل فیہ الصوم‘‘(۱)
ترجمہ:اگر اس میں شک ہوگیا کہ آج عرفہ کادن ہے یایوم النحر( دس ذی الحجہ کادن) ہے تو اس میں روزہ رکھناافضل ہے۔
(۱)رد المحتار علی ھامش الدرالمختار،کتاب الصوم ،مبحث في صوم یوم الشک :۲/۳۸۱مکتبہ ایم ایچ سعید
’’یفھم من کلامہم في کتاب الحج أن اختلاف المطالع فیہ معتبر فلایلزمہم شیئی لوظہر أنہ لورؤي في بلدۃ اُخریٰ قبلہم بیوم ،وہل یقال کذلک في حق الاضحیۃ لغیر الحاج ؟لم أرہ والظاہر نعم لأن اختلاف المطالع إنمالم یعتبر في الصوم لتعلقہ بمطلق الرؤیۃ وھذابخلاف الاضحیۃ ،فالظاہر أنہاکأوقات الصلوٰۃیلزم کل قوم العمل بماعندہم فتجزي الاضحیۃ في الیوم الثالث أي الثاني عشروإن کان علی رؤیاغیرہم الرابع عشرأي الثالث عشر‘‘(۲)
ترجمہ: کتاب الحج میں ان کے کلام سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں اختلاف مطالع معتبر ہے تو اگر معلوم ہوکہ ان سے ایک دن پہلے کسی اور شہر میں رؤیت ہلال ہوئی ہے تو ان پرکوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔اور کیاغیرحجاج کے لیے قربانی کے بارے میں اس طرح کاقول ہوگا؟میں نے نہیں دیکھااور ظاہر یہ ہے کہ ہاں (یہی قول ہوگا)۔اس لیے کہ روزہ میں اختلاف مطالع معتبر اس لیے نہیں کہ اس کاتعلق مطلق ِرؤیت کے ساتھ ہے اور یہ قربانی کے خلاف ہے ۔تو ظاہر یہ ہے کہ یہ (قربانی ) اوقاتِ نماز کی طرح ہے ہرقوم پر ان کی حالت کے مطابق عمل لازم ہوگا۔توقربانی کرناتیرھویں دن یعنی بارھویں دن میں جائز ہوگی اگر چہ یہ دن غیرکے رؤیت کے مطابق چودھویں دن یعنی تیرھویں دن ہو۔
(۲)رد المحتار علی ھامش الدرالمختار،کتاب الصوم ،مطلب :في اختلاف المطالع :۲/۹۴،۳۹۳،مکتبہ ایم ایچ سعید
’’ویوم عرفۃ التاسع من ذی الحجۃ وسمي بہ لأن إبراہیم ؑعرف أن الحکم من اللہ فیہ ،أولأن جبریلؑ عرّفہ المناسک فیہ،أولأن آدم وحواء تعارفافیہ بعد الھبوط إ لی الأرض‘‘(۳)
ترجمہ: اور عرفہ کادن نو ذی الحجہ (کوکہاجاتا)ہے اس کو یوم عرفہ اس لیے کہاجاتاہے کہ حضرت ابراہیم ؑنے اسی دن میں اللہ تعالی کے حکم کوپہچان گئے تھے،یااس وجہ سے کہ اس دن حضرت جبریل ؑ نے حضرت ابراہیم کومناسک حج سکھائیں،یااس وجہ سے کہ حضرت آدم وحواء علیھماالسلام نے زمین میں اترنے کے بعد عرفہ کے دن ایک دوسرے کوپہچان لیاتھا۔
(۳)البحر الرائق،کتاب الحج ،باب الإحرام:۲/۵۸۸،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ