دارالافتاء

عاق کر دینے سے بیٹا میراث سے محروم نہیں ہو تا

سوال :

         کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ،کہ ایک آ دمی نے تمام بیٹوں اپنے سا منے بٹھایا ،اور ان میں سے ایک کو عاق کر کے، باقی کے درمیان اپنی جائیدادکو زبانی  طور پر تقسیم کر دیا،اور کہا کہ میرے مال و جائیداد میں اس کا کوئی حصہ نہیں ،اب پو چھنا یہ ہے، کہ باپ کے انتقال کے بعد اس عاق شدہ بیٹے کو میراث میںسے کوئی حصہ ملے گا یانہیں ؟

الجواب وباللہ التوفیق:

         فقہی اصول کے مطابق جس وقت موہوب لہ شئی موہوبہ پر قبضہ کرے،تواسی وقت ہبہ تام  ہوجاتی ہے، صرف زبانی تقسیم سے ہبہ تام نہیں ہوتا،صورت مسئولہ میں باپ کا اپنے بیٹوں کے درمیان زبانی طور پر اپنی جائیداد کو تقسیم کرنا،اور ان کو مستقل طور قبضہ نہ کرانا،اس سے بیٹوں کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی،بلکہ اس پر باپ کی ملکیت برقرار رہی گی، باپ کے انتقال کے بعد تمام وارث اس میں برابر شریک ہوں گے ، اور وراثت کے منتقل ہو نے میں مورث کے اختیار اور رضامندی کا کوئی دخل نہیں۔لہذاباپ اگر اپنے بیٹے کو عاق کر دے ،تو اس کی وجہ سے وہ میراث سے محروم نہیں ہو گا۔

والدلیل علی ذلک:

     و تتمّ الھبۃ بالقبض الکا مل۔(۱)

         ترجمہ: ہبہ مکمل طور پر قبضہ کرلینے سے تام ہوجاتی ہے۔

(۱)الدرالمختا ر علی صدر رد المحتار للشیخ علاء الدین الحصکفي ؒ،کتاب الھبۃ،۸/۴۹۳،مکتبہ امدادیہ ملتان

        الاِ رث جبری ٌ لا یسقط  بالا سقاط (۲)

         ترجمہ: میراث ایک جبری چیز ہے جوساقط کردینے سے ساقط نہیں ہوتا۔

(۲)تکملۃ رد المحتار،کتاب الدعوی،باب التحالف،واقعۃ الفتویٰ،۱/۶۷۸، مکتبۃ امدادیہ ملتان،

        وقال ﷺ: من قطع میراث  وارثہ قطع اللہ میراثہ  من الجنۃ(۳)

         ترجمہ: جو اپنے وارث کے میراث کو کردے اللہ تعالیٰ جنت میں سے اس کی میراث کو ختم کردیں گے۔

(۳)مشکوٰۃالمصا بیح،باب الوصایا،۱/۲۷۲،مکتبہ رحمانیہ لاھور۔