دارالافتاء

قتل ِخطا میں کفارہ کاحکم

سوال  :

        کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ماں کے کروٹ بدلنے سے بچے کاموت واقع ہوگئی ،اس کاکفارہ کیاہے؟کیااس میں تین ماہ مسلسل روزے رکھنالازم ہوتاہے؟

الجواب وباللّٰہ التوفیق:

        مذکورہ قتل ،نہ قتل ِعمد ہے اور نہ قتل ِ خطا،بلکہ قتل ِخطاکے قائم مقام ہے ۔اور اس کاحکم یہ ہے کہ قتل کرنے والے پرکفارہ لازم آتاہے ۔لہذامذکورہ صورت میں ماں پربچے کی موت کی وجہ سے کفارہ لازم آئے گااور کفارہ دوماہ مسلسل روزے رکھناہے ،نہ کہ تین ماہ۔

والدّلیل علی ذلک:

’’وأما ماجریٰ مجریٰ الخطاء فھومثل النائم ینقلب علی رجل فیقتلہ فلیس ھذا بعمد ولاخطاء……وحکمہ حکم الخطاء من سقوط القصاص ووجوب الدیّۃ وحرمان المیراث‘‘(۱)

ترجمہ :       اورجو قتل ،قتل خطاکے قائم مقام ہے تو اس کی مثال ایسے سونے والے شخص کی طرح ہے جوکسی آدمی پر پلٹ کراس کو قتل کردے تویہ نہ قتلِ عمد ہے اور نہ قتلِ خطاء،۔۔۔اور اس کاحکم قصاص کے ساقط ہونے ،دیت کے واجب ہونے اور میراث سے محروم ہونے میں قتل خطاء کی طرح ہے۔

(۱)جماعۃ من العلماء الفتاویٰ الھندیۃ ،کتاب الجنایات ،الباب الأول في تعریف الجنایۃ ……الخ،:۶/۳رشیدیہ

’’وإن کان الوالد قتل ولدہ خطأً فالدیۃ علی عاقلتہ ،علیہ الکفارۃ في الخطاء ،ولاکفارۃ علیہ في العمد عندنا۔‘‘(۲)

ترجمہ:        اگر باپ نے بیٹے کو خطأً قتل کردیاتو دیت عاقلہ پر واجب ہوگی ،اور قتل خطا میں قاتل پر کفارہ واجب ہوتی ہے۔البتہ ہمارے نزدیک قتل عمد میں کفارہ واجب نہیں۔

(۲)الفتاوی الھندیۃ ،کتاب الجنایات،الباب الثأني فیمن یقتل قصاصاً ومن لایقتل:۶/۴مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ

وقال تبارک وتعالی:’’ومن یقتل مؤمناً خطأً فتحریر رقبۃ مؤمنۃ ……فمن لم یجد فصیام شہرین متتابعین‘‘(سورۃ النساء:۹۲)

ترجمہ:        اللہ تعالی جل شانہ فرماتے ہیں کہ ’’اور جس نے کسی مؤمن کو خطأً قتل کرلیا تو اس پرایک مسلمان غلام کوآزاد کرناواجب ہے۔۔۔اور جو اس کو نہ پائے تواس پر مسلسل دو مہینے روزے رکھنالازم ہے۔