دارالافتاء

مال نصاب پر سال شروع ہونے کی ابتدا

سوال: 

         کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں،کہ ایک آدمی کے پاس اگست ۲۰۰۹ء؁ سے مارچ۲۰۱۰ء؁ تک ایک لاکھ روپے موجود تھے،مارچ کے مہینے میں اس نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے پر تجارت کی غرض سے ایک پلاٹ خریدلیا،اور پوری رقم نقد اداکردی۔اب پوچھنا یہ ہے،کہ حولان حول(ایک مکمل سال گزرنے)کا اعتبارمارچ کے مہینے سے یا اگست کے مہینے سے کیا جائے گا؟ از راہ کرم تفصیلی اور مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔

الجواب وباللہ التوفیق:

         شریعت مطہرہ کی رو سے زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے ،جب بقدر نصاب مال پر پورا سال گزر جائے،سال شروع ہونے کا اعتبار اسی وقت سے کیا جائے گا جس وقت سے بقدر نصاب مال پر ملکیت حاصل ہوجائے۔

سال کے درمیان نصاب کے اتارچڑھاو یا تجارت کی غرض سے کسی چیزکے خریدنے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔صورت مسئولہ میں چونکہ بقدر نصاب پر ملکیت اگست ۲۰۰۹ء؁ کو حاصل ہوئی ہے،اسی وجہ سے اگست ۲۰۰۹ء؁ ہی سے سال شروع ہونے کا اعتبار کیا جائے گا۔

والدلیل علی ذلک:

         لو استبدل مال التجارۃ،أو النقدین بجنسھا،أوبغیرھالا ینقطع حکم الحول۔(۱)

         ترجمہ:اگر مال تجارت یا نقدین (سونا چاندی)کو اس کے جنس کے ساتھ ،یا خلاف جنس کے ساتھ تبدیل کیا گیا،تواس سے سال شروع ہو نے کا حکم منقطع نہیں ہوگا۔

(۱)جماعۃ من العلماء ،الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوۃ،الباب الاول في تفسیر ھا،وصفتھا ،وشرائتھا:۱/۱۷۵،مکتبۃ رشیدیۃکوئٹۃ ۔

وکذا في الخانیۃ: لو اشتراہ أی عبداً بمائۃ وتسعین درھما،وذاک قیمتہ،ثمّ صاریساوي مائتي د رھم مضروبۃ ،قال محمد :یعتبر من حینٍ صاریساويمائتي درھم مضروبۃ۔(۲)

         ترجمہ:اگر کسی نے ۱۹۰ درھم کے بدلے ایک غلام خریدا ،پھر بعد میں اس کی قیمت ۲۰۰درھم کو پہنچ گئی،تو سال شروع ہونے کا اعتبار اس وقت سے کیا جائے گا۔                                                         

(۲)الفتاوی الخانیۃعلی ھامش الفتاوی الھندیۃ ،للامام فخرالدین حسن بن منصور الاوزجندي،کتاب الزکوۃ،فصل في مال التجارۃ، ۱/۲۵۲، مکتبۃ  رشید یۃ  کوئٹۃ