سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے می کہ ایک آدمی اسلام آبادسے عصرکے وقت روانہ ہوا،راستے میں ڈرائیور کو باربار کہتارہاکہ گاڑی روک دے ،تاکہ ہم نمازادا کریں اورڈرائیور کہتا رہا کہ ابھی روکتاہوں ،ابھی روکتا ہوں،اسی طرح کہتے کہتے آخری وقت میں وہ مردان پہنچ گیا ،لیکن مسجد پہنچتے ہی عصر کا وقت نکل چکاتھا،یادرہے کہ مردان اس آدمی کا شہر بھی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس نماز کی قضا قصر پڑھے گا یا پوری نمازپڑھے گا؟
الجواب وباللہ التوفیق :
شریعت مطہرہ کی روسے قصر کی نماز کا دار ومداروقت کے آخری حصے پر ہو تاہے ،اگر کوئی مسافر شخص وقت کے آخری حصے میں اپنے شہر کی حدود میں داخل ہوجائے ،تو وہ مقیم بن جاتا ہےاور مقیم پر پوری نماز ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
صورت مسئولہ میں مسافرچونکہ آخری وقت میں اپنے شہر کی حدود میں داخل ہو گیا ،لہذا اسے مقیم سمجھا جائے گا، اگر چہ اس کو نماز ادا کرنے کی فرصت نہ ملی ہو ،لہذا اس فوت شدہ نماز کی قضاء پوری نماز کی شکل میں بجالائے گا۔
والدلیل علی ذلک:
واذا دخل المسافر فی مصرہ أتم الصلوۃ ۔(۱)
ترجمہ: مسافر جب اپنے شہر میں داخل ہوجائے ،تو پوری ادا کرے گا۔
(۱)الھدایۃ لشیخ الاسلام برھان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی ،کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ المسافر،۱/۱۷۶ ،مکتبہ رحمانیہ لاھور،
’’والمعتبر فی تغییر الفرض آخرالوقت وھو قدر ما یسع التحریمۃ ، فاِن کان المکلف فی آخرہ مسافرا ً وجب رکعتان ،والا فاَربعٌ‘‘۔(۲)
ترجمہ: اور فرض متغر ہونے میں آخری وقت کا اعتبار ہے،اوراس کی مقدار اتنی ہے ،کہ بس اس میں صرف تکبیر تحریمہ کہی جاسکے،لہذا اگر آخری وقت میں مسافر تھا ،تو قصر کرے گا ،ورنہ پوری چار رکعت ادا کرے گا۔
(۲)الدرالمختار علی صدر ردالمحتار للعلامہ علاء الدین الحصکفی ؒ،کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃالمسافر،۲/۶۱۳ ،مکتبہ امدادیہ ملتان،
’’وإن لم یصلّ حتیٰ لوأقام فيآخرالوقت ینقلب فرضہ أربعاوإن لم یبقيمن الوقت إلاقدرمایسع فیہ بعض الصلوۃ‘‘(۳)
ترجمہ: اور اگر مسافر شخص نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ آخری وقت میں مقیم بن جائے تواس کی فرض نماز چار رکعات ہوجائے گی،اگرچہ وقت میں سے صرف اس قدر وقت باقی ہو کہ جس میں نماز کاکچھ حصہ (تکبیرِتحریمہ) اداکی جاسکے۔
(۳)التاتارخانیۃ،للعالم بن العلاء الأنصاري،کتاب الصلوٰۃ،الفصل الثاني والعشرون في صلاۃ المسافر،نوع آخر في المتفرقات:۲/۲۲،مکتبۃ محمودیۃ کوئٹہ