دارالافتاء

مقتدی کا امام کے سلام پھیرنے سے پہلے تکبیر تحریمہ کہنا

سوال :

        کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ، کہ مسبوق مقتدی نے تکبیر تحریمہ ادا کی اورقعدہ میں اما م کے ساتھ شریک ہونے کے لئے ابھی دوسری تکبیر نہیں کہی تھی،کہ امام نے سلام پھیر دیاتو اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح  کی اقتدادرست ہے یا نہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق:

        جب مسبوق مقتدی نے امام کے سلام سے پہلے اقتدا کی نیت سے تکبیر تحریمہ اداکرلیا تو وہ امام کے ساتھ نماز میں داخل ہوگیا،اسی لیے کہ صحتِ اقتداکے لیے اقتداکی نیت سے تکبیر تحریمہ کہنا کافی ہے،لہذا یہ مقتدی اسی تحریمہ سے مسبوق کی طرح بقیہ نماز اداکرے ۔قعدہ ٔأخیرہ میں بیٹھنے کے لیے تکبیر کہنے سے پہلے امام کاسلام پھیرنا صحتِ اقتداکے لیے مضر نہیں۔

والدلیل علی ذالک:

’’وإذا انتھی الرجل إلی الإمام ،وقد سبقہ برکعتین، وھو قاعد، یکبرتکبیرۃ الافتتاح لیدخل بھا في صلاتہ،ثم کبرأخری ویقعد بھا‘‘(۱)

        ترجمہ:

        جب کوئی شخص امام کو اس حال میں پالے،کہ اس سے دو رکعت ہو گئے ہوںاور امام قعدہ میں ہو تو وہ پہلے تکبیر تحریمہ کہہ دے ،تاکہ اس کے ذریعہ امام کے ساتھ نماز میں داخل ہو جائے ،پھر دوسری تکبیر کہدے اور امام کے ساتھ قعدہ میں بیٹھ جائے۔

(۱) المبسوط للسرخسی ،کتاب الصلوۃ،باب افتتاح الصلوۃ،  ۱/۱۳۵ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ۔

قال الحصکفيؒ:’’والصغصریٰ ربط صلوٰۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ:نیۃ المؤتم الإقتداء‘‘وقال الشامي:قولہ(نیۃ المؤتم)أي الإقتداء بالإمام أو الإقتداء بہ في صلٰاتہ أو الشروع فیھاأو الدخول فیھابخلاف نیۃ صلاۃ الإمام،وشرط النیۃ أن تکون مقارنۃ للتحریمۃ،أومتقدمۃ علیھا بشرط أن لا یفصل بینھا وبین التحریمۃ فاصل أجنبي‘‘۔(۲)

       

ترجمہ:

        علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں کہ مقتدی کی نماز امام کے ساتھ مربوط ہونے کے لیے دس شرائط ہیں،ان میں سے ایک مقتدی کا اقتداکی نیت کرناہے۔علامہ شامی ؒفرماتے ہیں کہ شارح کے اس قول (مقتدی کااقتداکی نیت کرنا)کامطلب یہ ہے ،کہ مقتدی امام کی اقتدا کی نیت کرے یا نمازمیں امام کے اقتداکی نیت کرے یانماز میں شروع ہونے کی نیت کرے یا نمازمیں داخل ہونے کی نیت کرے ،بخلاف مقتدی کاامام کی نماز کی نیت کرنا۔اور نیت کی صحت کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ پیوست ہویا مقدم ہولیکن نیت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کسی فعلِ اجنبی سے فصل نہ آیاہو۔

(۲)الدر المختار مع ردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب الإمامۃ:۲/۲۸۵،مکتبہ امدادیہ ملتان