سوال :
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ،کہ میں نے دورکعات نفل نماز ناپاک جرابوں میں شروع کی ،جب یاد آیاتو سلام پھیر کر جراب اُتار دیے ۔توکیا مجھ پران دو رکعات نفل کی قضالازم ہے یانہیں ؟اور اگر جراب کے ناپاک ہونے کاشک ہواور نماز توڑکرجراب اُتار دے تو اس صور ت میں نفل نماز کی قضا لازم ہوگی یانہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
فقہی عبارات سے معلوم ہوتاہے کہ اگر کپڑوں میں ناپاکی کی مقدار قدرِدرہم سے زیادہ ہوتوچونکہ یہ جواز ِصلوٰۃ سے مانع ہے ،اس لیے اس کے ہوتے ہوئے نماز شروع کرنادرست نہیں ۔اور جب نمازشروع کرناہی درست نہ ہواتو پھر نماز توڑنے کی صورت میں اس کااعادہ بھی واجب نہیں ۔اور اگر ناپاکی کی مقدار قدرِدرہم یااس سے کم ہوتوچونکہ یہ نماز کی صحت اور جواز سے مانع نہیں ،اس لیے اس کے ہوتے ہوئے اگرنماز شروع کرنے کے بعد توڑدیاتواس کااعادہ واجب ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں اگرجراب میں نجاست کی مقدار قدرِدرہم سے زیادہ ہوتواس کی وجہ سے نفل نماز توڑ دینے سے اس کی قضالازم نہیں ۔لیکن اگر قدردرہم یااس سے کم ہوتو پھر اس کااعادہ واجب ہوگا۔
اور اگر نفل نماز کے اندر اسے جراب کے ناپاک ہونے کاشک لاحق ہوگیاتواگر اس کویہ شک پہلی بار لاحق ہوئی ہو تواس کے ناپاک ہونے کاحکم دیاجائے گا۔اگر اس صورت میں شک کے بناپرنماز توڑدے تو چونکہ اس کی ابتداء ہی درست نہیں ہوئی تھی لہذا اس کی قضا بھی لازم نہیں ہوگی۔اور اگر اس کویہ شک باربار پیش آتاہوتو اس شک کی پرواہ نہ کرے اور نماز پوری کرے ،اگر شک کی بناپر اس نے نماز توڑ دی تو اس کااعادہ واجب ہوگا۔
والدّلیل علی ذلک:
’’أماالنجاسۃ القلیلۃ فإنھالاتمنع جواز الصلوٰۃ سواء ًکانت خفیفۃ أوغلیظۃ استحساناً ……واختلفوافيالحد الفاصل بین القلیل والکثیرمن النجاسۃ ،قال ابراہیم النخعي:إذابلغ مقدارالدرہم فھوکثیر،وقال الشعبي:لاتمنع حتیٰ یکون أکثرمن قدرالدرہم الکبیروھوقول عامۃ العلماء وھوالصحیح۔‘‘(۱)
ترجمہ:
اور تھوڑی نجاست استحساناًنماز کے جواز سے مانع نہیں چاہے نجاست خفیفہ ہویاغلیظہ ۔اور علماء کرام نے قلیل اور کثیر نجاست کے درمیان حد فاصل میں اختلاف کیاہیں۔ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ جب درہم کی مقدار کوپہنچ جائے تو کثیر ہے ۔اور امام شعبی ؒ فرماتے ہیں کہ نماز کونہیں روکتی جب تک بڑے درہم کی مقدارسے زیادہ نہ ہواور یہ عام علماء کاقول ہے اوریہ صحیح ہے۔
(۱)بدائع الصنائع،کتاب الطہارت،فصل فيبیان مقدار……الخ،المقدارالمعفوعنہ من النجاسۃ:۱/۳۳،۲۳۲مکتبہ رشیدیۃ کوئٹہ
’’ولوشک فيصلوتہ أنہ ……ہل أصابت النجاسۃ الثوب أم لا……إن کان ذلک أول مرّۃ یستقبل الصلوٰۃ،وإن کان یقع مثل ذلک کثیراجاز لہ المضي ولایلزمہ الوضوء ولاغسل الثوب۔‘‘(۲)
ترجمہ: اگر نمازی کونماز میں شک ہوگیا ۔۔۔کہ اس کے کپڑوں کونجاست لگی ہے یانہیں ؟۔۔۔تو اگر اس کویہ شک پہلی مرتبہ لاحق ہوگیاہوتو ازسرِنونماز پڑھے ۔اور اگر باربار یہ شک اس کوپیش آتاہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ نماز جاری رکھے ۔اور اس کے لیے وضو کرنااور کپڑے دھونا ضروری نہیں۔
(۲)الفتاوی الخانیۃ علی ھامش الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلوٰۃ،فصل في مسائل الشک:۱/۱۰۸مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ