دارالافتاء

نماز کے اندر عمل کثیر اور اس کی مقدار

سوال :

         کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ،کہ نماز کے اندر عمل کثیر کی تعریف کیاہے؟اور نماز کے کسی ایک رکن میں تین یا چار دفعہ گلا صاف کرنا عمل کثیر میں داخل ہے یا نہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق :

         نمازی جب نماز میں کوئی عمل ایسا عمل کرے جو دور سے دیکھنے والے کو اس طرح نظر آجائے ،کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہاتو یہ عمل، عمل کثیر شمار ہوتا ہے ۔ اس قسم کے عمل سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ۔نماز کھنکھا رنے (گلا صاف کرنے ) کے لئے کوئی خاص حد مقرر نہیں ،تاہم بلا عذر کھنکھا رنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے بشرط یہ کہ اس سے حروف پیدا ہو جائیں ،جیسے: اُح اُح ۔اور اگر حروف پیدا نہ ہوں تو نماز فاسد نہ ہوگی لیکن کراہت سے پر بھی خالی نہیں،البتہ امام کے لئے جہری نماز میں بلا عذر بھی تحسین صوت کے لئے گلا صاف کرنے کی گنجائش ہے۔

والدلیل علی ذلک  :

’’والثالث:أنہ  لو نظر الیہ  ناظرمن بعید ان کان لا یشک أنہ فی غیرا لصلوٰۃ  فہو کثیر مفسد وان شک فلیس بمفسد وھذا ھو الأصح۔‘‘(۱)

         ترجمہ:اگرنمازپڑھنے والے کو کوئی دور سے دیکھنے والا دیکھے تو اگر اس کو یقین ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہا تو یہ عمل ،عملِ کثیر ہے ۔ اور اگراس کو (اس کا نماز میں ہونے یانہ ہونے میں ) شک ہو تو پھر اس کا یہ عمل نماز کو فاسد کرنے والا نہیں،اور یہی اصح قول ہے۔

(۱)جماعۃ من العلماء ،الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ ،۱/۱۰۲ ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ۔

        ’’(والتنحنح)بحرفین(بلاعذر)أمابہ بأن نشأمن طبعہ فلا(أو)بلا (غرض صحیح)فلو لتحسین صوتہ أو لیھتدي إمامہ أو للإعلام أنہ في الصلوٰۃ،فلافساد علی الصحیح‘‘(۲)

ترجمہ: بغیر عذر اور بلاکسی غرض ِصحیح کے گلا صاف کرنے سے اگر دوحرف پیدا ہوتے ہوں تو اس سے نماز میں فساد آجاتی ہے ۔اور اگر گلاصاف کرناکسی عذر کے بناپر ہویا اپنے آواز کو خوبصورت بنانے کی غرض سے ہویا اپنے امام کو متنبہ کر نے کے لیے ہو،یا کسی کو خبر دینے کے لیے کہ وہ نماز میں ہے،تو صحیح قول کے مطابق ان صورتوں میں گلاصاف کرنے کی وجہ سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی۔

(۲)الدرالمختار ،کتاب الصلوٰۃ ،باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیھا:۲/۳۷۷،مکتبہ امدادیہ ملتان