سوال :
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے کہ رنگساز یاپینٹر لوگ اپنے کام میں ہر وقت مصروف ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر پینٹ (ذی جرم ) لگاہوتا ہے،جس کادور کرناصرف پانی سے مشکل ہوتاہے ۔کیا وہ اسی کے ساتھ وضوکرکے نماز پڑھیں گے یا ہر وضو کے لیے رنگ کو ہٹانے کی کوشش کریں گے۔یاد رہے کہ پینٹ کاہٹانا پٹرول یادیگر کیمکز کے بغیر ناممکن ہوتاہے جبکہ ان اشیاء کے ساتھ بھی ہر وقت ہٹانے میں مشکلات ہوتی ہیں۔دلائل کی روشنی میں جواب دے کر ثواب ِ دارین حاصل کریں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
وضو میں (سرکے مسح کے علاوہ )چونکہ باقی اعضاء ثلاثہ کے مقررہ حدود تک پہنچاناضروری ہے ،اس لیے اگر کوئی ذی جرم چیز بدن پر لگ کر اس کی تہہ بن جائے تو اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل کرنا درست نہیں ،بلکہ حتیٰ الامکان اس کو جسم سے ہٹانا چاہیے ،رنگساز کے ہاتھ وغیر ہ پر عام طور پر پینٹ لگاہواہوتاہے اگر زائل کر نے میں دشواری نہ ہوتو وضو بناتے وقت اس کا ہٹانا ضروری ہے اور اگر حرج کے بغیر زائل کرنا ممکن نہ ہوتو موجب ِ حرج ہونے کے بنا پر اس کے ہوتے ہوئے بھی وضو اور غسل ہوجاتاہے۔بعض فقہاء کے ہاں ناخن پالش کابھی یہی حکم ہے ،لیکن محققین فقہاء کرام کی رائے یہ ہے کہ ناخن پالش وضو اور غسل کی صحت سے مانع ہوتی ہے،لہذا احتیاطاً اس سے اجتناب ضروری ہے۔
والدلیل علیٰ ذلک:
ویجب أي یفرض غسل کل مایمکن من البدن بلاحرج مرۃً……ولایمنع ما علیٰ ظفر صبّاع ولاطعام بین أسنانہ أو في سنہ المجوف ،بہ یفتیٰ،وقیل:إن صلباً منع وھو الأصح‘‘۔وقال ابن عابدینؒ:قولہ (وھو الأصح ):’’لأن نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج‘‘۔(۱)
ترجمہ: اور غسل میں جسم کاہروہ حصہ ایک مرتبہ دھونا فرض ہے جس کادھوناکسی حرج کے بغیر ممکن ہو۔اور رنگساز کے ناخن پررنگ،اور دودانتوں کے مابین یاکھوکھلے دانت کے اندر کھانے کاکچھ حصہ (پانی کو جسم تک پہنچنے سے ) مانع نہیں،اور اسی پر فتویٰ ہے۔اور کہاگیاہے کہ اگر یہ چیزیں سخت ہوں تو پھر مانع بن سکتاہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ضرورت اور مشقت نہ ہونے کے باوجود پانی کی سرایت سے مانع ہونے کی وجہ سے شارح نے اس قول کو اصح کہاہے۔
(۱)الحصکفي،علاؤالدین،الدرالمختارعلی صدرردالمحتار،کتاب الطھارۃ،مطلب في أبحاث الغسل:۱/۲۸۹،مکتبہ امدادیۃ ملتان’’قولہ(بخلاف نحوعجین) أي کعلک وشمع وقشرسمک وخبز ممضوغ متلبد……نعم ذکر الخلاف في شرح المنیۃ في الحجین،واستعظم المنع لأن فیہ لزوجۃ وصلابۃ تمنع نفوذالماء۔‘‘
ترجمہ: علامہ شامی فرماتے ہیں کہ شارح کایہ کہنا’’بخلاف نحو عجین‘‘یعنی گوندے ہوئے آٹے کی مانند دوسری اشیاء کے برعکس ،جیسے:گوند،موم،مچھلی کاچھلکااور ایسی چبائی ہوئی روٹی جو چپکنی والی ہو(یعنی یہ اشیاء پانی کو جسم تک سرایت کرنے سے مانع بنتی ہیں)،البتہ شر ح المنیۃ میں گوندے ہوئے آٹے کے متعلق اختلاف ذکر ہے،اوراس سے منع ظاہر ہوتا ہے کیوں کہ اس میں ایسی چکناہٹ اور سختی ہوتی ہے جو پانی کی سرایت کو منع کرتی ہے۔
(۲)ابن عابدین ،محمدأمین،ردالمحتارعلی ھامش الدرالمختار،کتاب الطھار ۃ ،مطلب فيأ بحاث الغسل :۱/۸۹،۲۸۸ ، مکتبہ امدادیۃ ملتان