دارالافتاء

بغیروضو ء کے قرآن یاتفسیر کے اوراق کوچونا

سوال :

         کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بلاوضو قرآن یاتفسیرکے ورق کے کنارے کودو انگلیوں کے پوروں سے پکڑ کر ورق الٹانا جائزہے کہ نہیں؟

الجواب وباللّٰہ التوفیق:

        قرآن پاک کوبغیر طہارت کے مس کرناجائز نہیں ،نہ قرآن کے الفاظ کواورنہ اس کے علاوہ قرآن کے کسی حصے کوبلاوضو ہاتھ لگاناجائز ہے ۔البتہ تفسیر کی کتابوں میں جہاں جہاں قرآن پاک کے الفاظ درج ہوں ،اس کاچوناتو ناجائز ہے،لیکن اس کے علاوہ دوسرے حصوں کوہاتھ سے چونے اور اس کے ورق کودوانگلیوں کے پوروں سے پکڑ کرورق الٹانے کی گنجائش ہے ۔تاہم اس طرح کرنابہرحال ادب کے خلاف ہے۔

والدّلیل علی ذلک:

’’قال العوفي عن ابن عباس :’’لایمسہ إلا المطہرون یعني الملائکۃ……وعن قتادۃ : ’’لایمسہ إلاالمطہرون‘‘ قال:لایمسہ عنداللہ إلاالمطہرون……وقال ابن زید :زعمت کفار قریش أن القرآن تنزلت بہ الشیاطین ،فأخبرہ اللہ تعالیٰ أنہ لایمسہ إلاالمطہرون ۔وقال الآخرون:لایمسہ إلاالمطہرون أي من الجنابۃ والحدث ‘‘(۱)

ترجمہ: عوفی ؓابن عباس ؓسے نقل کرکے فرماتے ہیں کہ’’اس کووہی چوتے ہیں جوپاک بنائے گئے ہیں یعنی فرشتے۔اور قتادۃ ؓ سے ’’لایمسہ إلاالمطہرون ‘‘کے متعلق مروی ہے کہ ’’اللہ تعالی کے نزدیک اس کووہی چوتے ہیں جوپاک بنائے گئے ہیں ۔اور ابن زید ؒفرماتے ہیں کہ کفارقریش کایہ خیال تھاکہ یہ قرآن شیاطین اتارتے ہیں تو اللہ تعالی نے خبردی کہ اس کو وہی چوتے ہیں جوپاک بنائے گئے  ہیں ۔اور بعض دوسرے لوگ فرماتے ہیں کہ اس کووہی چوتے ہیں جوجنابت اور حدث سے پاک کیے گئے  ہیں۔

(۱)تفسیر ابن کثیر:۴/۳۸۰،ادارۃ الأوقاف۔

’’وعلی الثاني المراد منہم المطہرون من الأحداث وعلیہ أکثر المفسرین ویؤیّدہ أن فیہ حمل المس علی حقیقتہ۔‘‘(۲)

ترجمہ: اور دوسرے قول کے مطابق اس سے مراد وہ لوگ ہیں جونجاست سے پاک کیے گئے ہیں۔اور اکثرمفسرین کایہی قول ہے ۔اور اس کی تائید یہ بات کرتی ہے کہ اس میں مس کواپنی حقیقی معنی پرمحمول کرناہے۔

(۲)رد المحتار علی ھامش الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،مطلب: في إعتبارات المرکب التام: ۱/۸۹مکتبۃ ایم ایچ سعید

’’وقدجوّز بعض أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث،……لایجوز مس مواضع القرآن منھا،ولہ أن یمس غیرھابخلاف المصحف……الخ۔‘‘(۳)

ترجمہ: اور ہمارے بعض اصحاب نے باوضو شخص کے لیے تفسیر چونے کوجائز قرار دیاہے ۔۔۔البتہ ان میں سے قرآن کے مواضع کوچوناجائزنہیں۔اور اس کے لیے قرآن کے غیر کوچوناجائز ہے اس کے برعکس قرآن کے۔

(۳)حاشیۃ الطحطاوي کتاب الطہارۃ،باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ:ص ۱۴۴قدیمی کتب خانہ کراچي