سوال:
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں ،کہ میرے والد صاحب سید کریم مرحوم وفات ہوگئے ہیں۔ان کاکل ترکہ 37مرلے گھرہے ۔مرحوم نے دوشادیاں کی تھی ،ایک بیوی سے دو بیٹے (احمد علی ،ضیاء الرحمن)اور ایک بیٹی (سلمہ ناز ) ہے۔اوردوسری بیوی سے دوبیٹے (شمس الرحمن ،عزیز الرحمن )اور سات بیٹیاں (شہلا،صالحہ ،انبیہ ،مزدلفہ ،شبینہ ،وجہت اور کوثر )ہیں۔پہلی بیوی (بے نظیرہ) ان کی زندگی ہی میں وفات پاگئی تھی ،جبکہ دوسری بیوی (گلنارہ )اب بھی زندہ ہے۔
مرحوم پر80,000 روپے قرض تھا،مرحوم کے بڑے بیٹے احمدعلی نے گھرکاخرچہ وغیرہ چلایا،جس کی وجہ سے مزید2,00,000روپے کاقرضہ ہوگیاجو2,80,000روپے تک پہنچ گئی ہیں۔
مرحوم کے رشتہ دار لعل زادہ صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم نے اپنے زندگی میں مجھے کہاتھا،کہ میراآدھاگھرپہلی بیوی کے بچوں کاہے اور آدھادوسری بیوی اور اس کے بچوں کاہے۔اور جوبیٹھک ہے وہ آپس میں مشترک ہے ،جبکہ بیوی( گلنارہ )کاکہناہے کہ آدھاگھرکے بارے میں مجھے کہاتھاکہ آپ کے بچوں کاہے اورآدھاپہلی بیوی کے بچوں کاہے۔اور ہمارا(مرحوم کا) اور آپ (بیوی گلنارہ ) کابیٹھک ہے۔
مرحوم نے اپنے بڑے بیٹے احمدعلی کی شادی اپنی زندگی میں کی تھی ،اور اس کے بیوی کے لیے مہر (نوتولے سونااور ایک کمرہ ) دیاتھا،جس پراس کے بیوی کاقبضہ ہے۔
مذکورہ میراث کی تقسیم شریعت کے روشنی میں کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔یادرہے کہ مرحوم 2006ء میں وفات ہواتھا،جبکہ مذکورہ وصیت کاعلم ابھی 2012ء میں ہمیں ہوگیاہے ،اور ابھی تک میراث تقسیم بھی نہیں ہواہے۔
الجواب وباللّہ التوفیق:
شرعی نقطۂ نظر سے میت کے تکفین وتدفین کے بعد سب سے پہلے اس کے مالِ متروکہ میں سے قرضوں کو(اگرہوتو۔۔۔)اداکیاجائے گا۔اس کے بعد (اگر میت نے وصیت کی ہوتو) ایک تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی ۔البتہ وارث کے حق میں وصیت کااعتبارنہیں ۔اس کے بعد میت کے میراث کو شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔
صورت مسئولہ میں جب 2006ء میں سید کریم کاانتقال ہوا تو اس وقت اس پر 80,000روپے کاقرضہ تھا،اس قرضے کو میت کے کل مال ِمتروکہ میں سے منہاکردیاجائے گا۔باقی رہی دولاکھ (2,00,000)روپے کی بات،جو چونکہ یہ احمد علی کی طرف سے دعویٔ قرض ہے اور دعوی کی صورت میں مدعیٰ علیہ کے بیان لینے اور ان کے احوال معلوم کرنے کے بعد فیصلہ کردیاجاتاہے۔لہذا بہتر یہی ہے کہ ان دولاکھ(2,00,000)روپے کے بارے میں دونوں فریق آپس میں مصالحت سے کام لیں۔
اس کے علاوہ مرحوم نے اپنے ورثا ء کے حق میں جووصیت کی تھی کہ ’’نصف گھر ایک بیوی کے بچوں کے لیے ،او ر نصف گھر دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے لیے ہوں گے،وغیرہ وغیرہ ‘‘۔اس کی یہ مذکورہ وصیت شرعاً معتبر نہیں۔بلکہ میراث کو شرعی طریقے سے تقسیم کیاجائے ۔
نیز مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنے بہو کے لیے جومہر (نوتولے سونااور ایک کمرہ ) مقرر کرکے اس کے حوالہ کردیاتھا،یہ بہوکی ملکیت ہوکر مرحوم کے مال متروکہ میں سے شمار نہیں کیاجائے گا۔اس کے بعد میت کے باقی مال متروکہ کو اس کے زندہ قریبی ورثاء کے مابین ان کے حصوں کے بقدر مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کیاجائے گا۔
ََََََََََََََََََََََََ سید کریم :8×16=128
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوجہ ابن ابن ابن ابن بنت بنت بنت بنت بنت بنت بنت بنت
گلنارہ،احمدعلی،ضیاء الرحمن ،شمس الرحمن،عزیز الرحمن،سلمہ ناز، شہلا، صالحہ ، انبیہ ، مزدلفہ ، شبینہ ، وجہت ، کوثر
16 14 14 14 14 7 7 7 7 7 7 7 7
بشرط ِصدق ثبوت اگر میّت کے مذکورہ ورثاء کے علاوہ کوئی اور زندہ قریبی وارث نہ ہوتو بعداز ادائے حقوق ِمتقدمہ علی الارث میّت کے کل مالِ متروکہ کو 128حصوں میں تقسیم کرلیاجائے گا۔ان میں سے اس کی بیوی(گلنارہ)کو16حصّے ،اور ہرہربیٹے کوچودہ چودہ(14,14) حصّے،جبکہ ہر ہربیٹی کوسات سات حصّے ملیں گے۔اور جہاں تک اس کی بیوی مرحومہ (بے نظیرہ) کاتعلق ہے تو وہ مرحوم سید کریم کے زندگی میں وفات ہوجانے کی وجہ سے میراث سے محروم رہے گی۔
والدّلیل علی ذلک:
’’الأول یبدأ بتکفینہ وتجہیزہ من غیر تبذیر ولاتقتیر ،ثمّ تقضیٰ دیونہ، ……ثمّ تنفذ وصایاہ من ثلث مابقي بعد الدین ،ثمّ یقسم الباقي بین ورثتہ‘‘۔(۱)
ترجمہ: سب سے پہلے میت کی تکفین وتدفین بغیرکسی کمی بیشی کے کی جائے گی،پھراس کے قرضے اداکیے جائیں گے،۔۔۔پھر بقیہ مال کے تہائی حصے سے اس کی وصیتیں نافذ کیے جائیں گے۔پھراس کے بعد باقی مال کومیت کے ورثہ کے مابین تقسیم کیاجائے گا۔
(۱)السراجي في المیراث ،للسجاوندي:ص:۳،مکتبہ رحمانیۃ لاہور
’’ولاتجوز لوارثہ لقولہ علیہ السلام:إن اللّہ تعالی أعطیٰ کل ذي حق حقہ،
ألا ، لاوصیّۃ لوارث ،ولأنہ یتأذیٰ البعض بإیثار البعض ،ففي تجویزہ قطعیۃ الرحم۔‘‘(۲)
ترجمہ: اور وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں،کیونکہ آپ ﷺ کاارشاد مبارک ہے :’’بیشک اللہ تعالی نے ہرحقدار کواس کاحق دیاہے،خبردار!وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے‘‘۔اور اس لیے کہ( وصیت کی وجہ سے )بعض ورثاء کوترجیح دینے سے دوسرے ورثاء کوتکلیف پہنچتی ہے،تو اس کوجائز قرار دینے میں قطع رحمی لازمی آتی ہے۔
(۲)الھدایۃ ،کتاب الوصایا:۴/۶۳۹ ،مکتبہ رحمانیۃ لاہور
’’فإن لم یکن في البلد قاض، فأنفق الکبار علی الصغار من أنصباء الصغار کانوامتطوّعین في ہذہ النفقۃ ،وہذا في الحکم،أمافیمابینہ وبین اللّہ تعالی لاضمان علیہم‘‘۔(۳)
ترجمہ: اگر شہر میں کوئی قاضی نہ ہو،اور بڑوں نے چھوٹوں پران کے حصے میں سے خرچ کردیاتو وہ بڑے بھائی وغیرہ اس نفقہ کرنے میں تبرع کرنے والے (ضامن )شمار ہوں گے۔اور قضائً اس کایہی حکم ہے۔اور دیانۃً ان پرکوئی ضمان نہیں۔
(۳)التاتر خانیۃ ،کتاب النفقات،وممایتصل بہذا النوع الکبار الذین الحقوا بالصغار:۴/۷۵،۱۷۴ مکتبہ محمودیہ کوئٹہ
’’وإذا زوّج إبنہ الصغیر إمرأۃ وضمن عنہ المہروکان ذلک في صحتہ جاز،وفي الکافي:فإن زوّج الأب طفلہ الفقیر إمرأۃ بمہر معلوم لایلزم المہرأباہ إلاإذاضمن ……وإذا أدّیٰ الأب ذلک ،إں کان الأداء في حالۃ الصحۃ لایرجع علی الإبن بماأدّیٰ استحساناً،إلاإذا کان بشرط الرجوع في أصل الضمان۔‘‘(۴)
ترجمہ: اگرباپ اپنے چھوٹے بچے کانکاح کسی عورت سے کردیں اور اس کی طرف سے مہرکی ضمانت قبول کرلیں۔اور یہ کام اس نے حالت ِصحت میں کیاہوتو جائز ہے۔اور الکافي (کتاب کانام ہے)میں ہے :اگر باپ اپنے فقیر بچے کانکاح کسی عورت سے مہر مسمیٰ کے عوض کردیں تو اس کے باپ پر یہ مہرلازم نہیں ،مگر یہ کہ وہ ضمانت قبول کرچکاہو۔اورجب باپ مہرکوحالتِ صحت میں اداکردیں ،تو استحساناًبیٹے پررجوع نہیں کرسکتا،ہاںاگراصل ِضمان میں اس نے رجوع کی شرط لگائی ہو۔
(۴)التاتر خانیۃ ،الفصل الثاني عشر:۳/۳۴،مکتبہ محمودیۃ کوئٹہ
’’أماللزوجات فحالتان الربع……عند عدم الولدوولد الإبن وإن سفل،والثمن مع الولد أو ولد الإبن وإن سفل،……وأمالبنات الصلب فأحوال ثلاث……ومع الإبن للذکر مثل حظ الأنثیین وہو یعصّبہن‘‘۔(۵)
ترجمہ: اور بیویوں کی دوحالتیں ہیں:چوتھاحصہ ،جب ا س کے ساتھ میت کابیٹا،پوتایااس کے نیچے کاکوئی اولاد موجودنہ ہو۔اورآٹھواں حصہ ،جب اس کے ساتھ میت کاکوئی بیٹا،پوتایانیچے کاکوئی اولاد موجود ہو۔۔۔۔اورجہاں تک تعلق ہے حقیقی بیٹیوں کا،تو ان کے تین حالتیں ہیں۔۔۔اوربیٹے کی وجہ سے عصبہ ہوکرہربیٹے کوبیٹی کادگناحصہ ملے گا۔
(۵)السراجي في المیراث:ص۸،۷ ،مکتبہ رحمانیۃ لاہور