دارالافتاء

مسنون دعاؤں کے وقت ہاتھ اٹھانا

سوال :

         کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ مسنون دعاؤں کے وقت ہاتھ اٹھاناجائز ہے یاناجائز؟مثلاً:اذان کے بعد کی دعا،سواری کی دعااور کھانے پینے وغیرہ کی دعائیں۔نیز کسی کے ہاں دعوت پرگئے اور کھاناکھانے کے بعد ہاتھ اٹھاکردعامانگناکیساہے؟

الجواب وباللّہ التوفیق:

         نمازوں کے بعد عموماًہاتھ اٹھاکردعامانگنامنقول ہے ،لیکن اس کے علاوہ مختلف اوقات میں ،مثلاً:صبح وشام وغیرہ کے وقت جو دعائیں پڑھی جاتی ہیں ،ان میں ہاتھ اٹھاکر دعامانگنامنقول نہیں ۔

         لہذاصورت مسئولہ میں اذان کے وقت یاسوارہونے کے وقت دعامانگنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے،اسی طرح ضیافت اور دعوت ِولیمہ کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ اٹھاکردعامانگنابھی ثابت نہیں۔

والدّلیل علی ذلک:

’’ویستحب للإمام بعد سلامہ أن یتحول ……ثم یدعون لأنفسہم وللمسلمین رافعي أیدیہم۔‘‘(۱)

ترجمہ: اورامام کے لیے مستحب ہے کہ سلام کے بعد (دائیں یابائیں طرف )مڑ جائے۔۔۔پھرہاتھ اٹھاکراپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعاکریں۔(۱)نور الإیضاح ،باب الإمامۃ ،فص:في الأذکار الواردۃ بعد الفرض:مکتبہ قاسمیۃ لاہور

’’ودل علی أنہ إذا لم یرفع یدیہ في الدعاء ،لم یمسحہ ،وہو قید حسن؛لأنہ علیہ الصلوٰٰۃ والسلام کان یدعو کثیراً ،کمافي الصلوٰۃوالطواف وغیرھامن الدعوات الماثورۃ دبرالصلوات،وعند النوم،وبعد الأکل،وأمثال ذلک،ولم یرفع یدیہ لم یمسح بھماوجہہ۔‘‘(۲)

ترجمہ: اور حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ اگر دعامیںہاتھ نہ اٹھائے تو چہرے پر(ہاتھ)نہ پھیرے۔کیونکہ آپ ﷺ اکثر دعائیں مانگتے تھے،جیساکہ نمازاورطواف میں اوران کے علاوہ نمازوں کے بعد ،سونے کے وقت اور کھاناکھانے کے بعد مسنون دعائیں مانگتے تھے۔اوروہ(جب ان دعاؤں کے وقت) ہاتھ نہیں اٹھاتے توچہرے پرنہیں پھیرتے تھے۔

(۲)مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الدعوات:۵/۱۳۲مکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ