دارالافتاء

ملکی قوانين کالحاظ کہاں تک ضروري ہے؟

:سوال :      کيافرماتے ہيں علماء کرام اس مسئلے کے بارے ميں کہ ايک شخص سعودي عرب ميں اگريمنٹ ويزہ پر جاکروہاں ايک دوسال کام کرے ،ليکن تنخواہ انتہائی قليل ہونے کی وجہ سے وہ شخص کفيل ياکمپنی کوچھوڑ کردوسری جگہ کاکرے ،يعنی کفيل سے جانا ہی  مجبوری کے بناپرہوکہ وہ تنخواہ زيادہ نہيں کرتا،اور جوموجودہ تنخواہ ہے وہ اس کے اہل وعيال کے ليے ناکافی ہے ؟ تو آيا يہ شخص اس کفيل کوچھوڑکر دوسری جگہ کام کرنے کے ليے جاسکتاہے يانہيں؟

:الجواب وباللہ التوفيق

       شرعي نقطہ نظرسے ملکی قوانين کالحاظ رکھناضروری ہے ؟ اور رعاياکے ہرہرفردکے ليے اپنی حکومت کے ہرجائز قانون کی پابندی لازم ہے ؟اور جس طرح اپنی حکومت کي طے شدہ قوانين کاانسان پابند ہوتاہے ،اسی طرح ديگر ممالک کے ساتھ جوقوانين معاہدہ کے طورپرطے پاتے ہيں ،ان کي پاسداری بھی ضروری ہے ،کيونکہ وہ بھی بالواسطہ ہماری  ہی قانون کاايک حصہ ہے ؟

         صورتِ مسئولہ ميں مذکورہ شخص کااپنے کفيل کوچھوڑکر کسی دوسری جگہ کام کرناچونکہ اس ملک کے طے شدہ قانون کے خلاف ہے ،لہذا اس کی مخالفت اور خلاف ورزی اس کے ليے جائز نہيں ،اس ليے کہ مذکورہ خلاف ورزی سے وعدہ ٔخلافی کابھی مرتکب ہورہاہے ،اس ليے کہ حکومت ياکفيل کے ساتھ اگريمنٹ کرناوعدہ کے حکم ميں ہے؟

والدّليل علي ذلک:

’’واوفوابالعھد”(سورة البقرة:34)

ترجمہ: عہد کوپوراکرو!”وتجب طاعة الامام فیمالیس بمعصیة ”(١)

ترجمہ: بادشاہ کی اطاعت ان چیزوں میں ضروری ہے جومعصیت نہ ہو۔

(١)ابن عابدین محمد أمین،ردالمحتارعلی ھامش الدرالختار،کتاب الصلوٰة،باب العیدین ،مطلب:تجب طاعة الامام……الخ.:٢/١٧٢مکتبہ ایم ایچ سعید

”وقال ابن عابدین :والأصل فیہ قولہ تعالی:(وأولی الأمرمنکم)……وعن ابن عمر أنہ علیہ الصلوٰة والسلام قال:”علیکم بالسمع والطاعة لکل من یؤمرعلیکم مالم یأمرکم بالمنکر”(٢)

ترجمہ: علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ قول ہے (ترجمہ):اورتم میں سے حکم کرنے والے (ان کی اطاعت تم پرفرض ہے)۔اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضورنے ارشاد فرمایاکہ تم پر اپنے حکمرانوں کی اطاعت اور ان کی بات ماننالازمی ہے،جب تک کہ وہ برائی کاحکم نہ کریں۔

(٢)ردالمحتارعلی ھامش الدرالمختار،کتاب الجھاد،باب البغاة،مطلب :فوجوب طاعة الامام :٤٦٥،٢٦٤،سعید